اقبال سروبہ ۔۔۔ غزلیں

قربتوں کے دلربا گزرے زمانے یاد کر
نت نئے ملنے ملانے کے بہانے یاد کر

ہاں وہی مستی میں ڈوبے دل نوا شام و سحر
ہاں وہی جام و سبو وہ بادہ خانے یاد کر

بچپنا مٹی کی خوشبو بارشوں کی شوخیاں
خواب، جگنو اور گڑیوں کے فسانے یاد کر

گاؤں کے اک بوڑھے برگد کی گھنیری چھاؤں میں
مل کے جو گاتے تھے وہ نغمے پرانے یاد کر

یاد تو ہو گی سمندر کی کہانی آج بھی
نام لکھ کر بر لبِ ساحل مٹانے یاد کر

قرب کے لمحات میں میری کسی بھی بات پر
مجھ سے یونہی روٹھ جانے کے بہانے یاد کر

میں فقط ہوں اپنے ناکردہ گناہوں کا اسیر
تو بھی تو تیرِ نظر کے وہ نشانے یاد کر

بیتے لمحوں کو کبھی آواز دے اقبال تو
بھیگی بھیگی سی رُتیں، منظر سہانے یاد کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاند اور ستارے ہیں روشنی کے میلے میں
دل مگر اکیلا ہے زندگی کے میلے میں

شعر اور غزلیں بھی ساتھ ساتھ ہیں میرے
میں کہاں اکیلا ہوں شاعری کے میلے میں

آدمی اکیلا ہی زندگی سے لڑتا ہے
ساتھ کون ہوتا ہے بے خودی کے میلے میں

غم ملا تو ہم نے بھی راستہ بدل ڈالا
کون لوٹ کر جائے اب خوشی کے میلے میں

خوش گوار چہروں سے مل کے آ رہا ہوں میں
میں گیا تھا چپکے سے خامشی کے میلے میں

ایک اچھے ساتھی کی اب مجھے ضرورت ہے
آ گیا ہوں بھولے سے دوستی کے میلے میں

میں تو کل بھی تھا اقبال اپنی ذات کے اندر
آج بھی میں رہتا ہوں سادگی کے میلے میں

Related posts

Leave a Comment